ادب برائے ریڈیو ۔۔۔ محمد اسد اللہ

 

ادب اور ریڈیو کا تعلق ریڈیو سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ یہاں ریڈیو سے مراد ہمارا وہ پرانا ریڈیو ہرگز نہیں جو جنگلو ریڈیو میکینک کی دکان میں جلاوطنی کے پانچ سال گزار کر لوٹا ہے اور اب حشرات الارض کا بسیرا ہے۔ جس میں ایک ہی مقام پر دوسٹیشنوں کی جدید و قدیم آوازوں کا سنگم نشر ہوتا ہے۔ کہیں کی نظم اور کہیں کی نثر مل کر نثری نظم کا لطف پیدا ہو جاتا ہے اور جسے ڈھولک کی طرح تھاپ دی جائے تو ہوش میں آ کر جوش کے ساتھ کچھ آوازیں اپنے زندہ ہونے کے ثبوت میں اگل دیتا ہے اور پھر دھیرے سے کچھ اس طرح کوما میں چلا جاتا ہے جیسے زندگی سے معنویت رخصت ہو گئی ہو۔

در اصل ریڈیو سے ادب کے تعلقات اس زمانے سے چلے آ رہے ہیں جب ریڈیو پیدا نہیں ہوا تھا، یعنی وہ ابتدائی زمانہ جب ادب لکھنے کی نہیں بلکہ سننے کی چیز ہوا کرتا تھا۔ حالاں کہ اس زمانہ میں بھی ادب عورتوں کی تخلیقی سرگرمیوں میں شامل نہیں تھا۔ پھر ہوا یہ کہ ادب کا رشتہ آواز سے ٹوٹا اور کاغذ و قلم سے استوار ہو گیا۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوائی پر روتی رہی تب کہیں کسی ستم ایجاد نے ریڈیو ایجاد کیا تاکہ لوگوں کے بگڑے ہوئے ذوق کی اصلاح ہو سکے۔

یوں تو ریڈیو فلمی گیت اور خبریں سننے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس سے ادبی پروگرام بھی گاہے بگاہے نشر کیے جاتے ہیں، ہمیں یقین ہے اگر اس کے موجد کو اس بات کا اندازہ ہوتا تو وہ ہر گز ریڈیو ایجاد کرنے کی جرأت نہ کرتا۔ ریڈیو کے بغیر بھی ادب کی اپنی ایک آواز ہے اس آواز میں آواز ملانے والا یعنی ریڈیو مل گیا تو یہ دو آتشہ ستم ڈھانے لگا۔ فی الحال ہماری بحث کا دائرہ اس ادب تک محدود ہے جو ریڈیو پر پیش کرنے کے لیے لکھا جاتا ہے۔

ریڈیو نہ صرف ادب کی بلکہ ادیبوں کی بھی بہت بڑی خدمت انجام دیتا رہا ہے۔ ادب کی تاریخ میں ہم مختلف تحریکات کا ذکر سنتے آئے ہیں مثلاً ترقی پسند تحریک، جدیدیت کی تحریک وغیرہ۔ فی الحال ہمارے لیے اردو ادب کی سب سے بڑی تحریک ریڈیو ہے۔ ریڈیو جو ان ادیبوں سے بھی لکھواتا ہے جو لکھنے سے توبہ کر چکے تھے اور پڑھنے والے بھی انھیں سن سن کر سر دھنتے رہتے ہیں جن کی توبہ قبول ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

بعض لوگ مثال کے طور پر ہم، ان دنوں صرف اس لیے لکھتے ہیں کہ ریڈیو والے کوئی عنوان پیش کر دیتے ہیں کہ اس پر آپ کو بولنا ہے۔ حالانکہ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی موضوع ایسا نہیں بچا جس پر ادب میں طبع آزمائی نہ کی گئی ہو۔ مصیبت یہ ہے کہ ریڈیو پر کسی موضوع کے تحت بولنا پڑتا ہے جبکہ آدمی اس وقت زیادہ اچھی طرح بول سکتا ہے جب اس کے پاس نہ کوئی موضوع ہو نہ کوئی خیال۔ بہر حال ریڈیو ان سے بھی لکھواتا ہے جو ادب میں اپنا بوریہ بستر لپٹنے کی فکر میں ہوں، یہ ان سے بھی شاعری کرواتا ہے جن سے ایام شباب میں غلطیوں کی طرح کچھ غزلیں یا نظمیں سرزد ہو گئی تھیں مگر اب بیچارے اپنی پروفیسری کا بھرم باقی رکھنے کے لیے تنقیدی جائزہ لیتے رہتے ہیں۔

ریڈیو ان سے بھی تنقیدی مضامین اور معلوماتی مضامین اگلواتا ہے جن سے یہ دونوں اصناف پناہ مانگتی ہیں۔ ریڈیو مجھ جیسے ادیب سے  طنز و مزاح لکھواتا ہے جس کی موجودگی میں لطیفہ سنایا جائے تو اقوال زریں بن جاتا ہے۔ ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب ریڈیو کے لیے لکھا جاتا ہے۔ ریڈیو کے لیے پڑھا جاتا ہے اور ریڈیو کے لیے سنا بھی جاتا ہے، یعنی لوگ انہیں صرف اس لیے سنتے ہیں کہ ریڈیو مدتوں بند پڑا رہے تو کہیں اس میں چوہے جھینگر وغیرہ آ کر رہنا شروع نہ کر دیں۔ اس لیے وہ ریڈیو اور ادب کی آواز کو زندہ رکھ کر اپنے صاحبِ ذوق ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ریڈیو سے نشر ہونے والے اسی قسم کے ادب کو ادب برائے ریڈیو کہا جاتا ہے۔

ادب برائے ریڈیو کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ یہ لکھا نہیں جاتا، لکھوایا جاتا ہے۔ پڑھا نہیں جاتا، پڑھوایا جاتا ہے۔ نہ یہ ادب برائے ادب ہے نہ ادب برائے زندگی، یہ ادب برائے سامعین ہے۔ سامعین اسے سنتے ہیں اور سردھنتے ہیں۔ سنتے سنتے جب دردِ سر، سر اٹھاتا ہے تو ریڈیو کا بٹن آف کر دیتے ہیں، یہ اس ادب کا سب سے اہم افادی پہلو ہے۔ اسے تعمیری ادب میں شمار کیا جا سکتا ہے کہ یہ تعمیر قوم کا فریضہ انجام دیتا ہے اور آج کل ہونے والے تمام تعمیری کاموں کی طرح مرزا غالبؔ کا یہ مصرع اس پر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے:

میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی

اس ادب کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ بجلی سے چلتا ہے اسی لیے برق رفتار واقع ہوا ہے۔ ہوا کے دوش پر آتا ہے اور اسی تیزی سے ہوا ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لیے یہ عجلت میں لکھوایا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک ریڈیو اسٹیشن انچارج کا ہمیں فون ملا، کہنے لگے:

’’کیا آپ کو ہمارا لیٹر نہیں ملا؟۔ ‘‘

میں نے جواباً کہا:

’’جی نہیں۔ ‘‘

اس پر وہ فرمانے لگے:

’’خیر کوئی بات نہیں، آج کل تو ہم سب اس کے عادی ہو گئے ہیں، بہر حال آپ کو کل تین بجے ریڈیو اسٹیشن آ کر ریڈیو ٹاک ریکارڈ کروانا ہے۔ ‘‘

’’اس ریڈیو ٹاک کا عنوان کیا ہے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔

’’معاف کیجئے میں ذرا جلدی میں ہوں۔ ‘‘ اور فون رکھ دیا گیا۔ اگلے دن ہم نے اسی موضوع پر ریڈیو اسٹیشن جا کر اظہار خیال کیا۔

اگر آپ ریڈیو کے لیے لکھتے ہیں تو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ ریڈیو سے پیش کیے جانے والے ادبی پروگراموں میں آپ کو ایک عدد عنوان دیا جاتا ہے، شاعری البتہ بلا عنوان ہوا کرتی ہے۔

نثر نگاروں کو عنوان سے باندھ کر لکھوانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہو گا کہ ان کے لکھے پر اعتبار نہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ ہمارا امتحان لینے کی غرض سے یہ عنوانات تجویز کیے جاتے ہیں، لیکن تجربات نے بتایا کہ یہ اہتمام در اصل سامعین کے صبر کا امتحان لینے کے لیے ہے۔

یہ مجوزہ عنوانات کس قدر عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند برسوں پہلے جب ہماری ایک عدد دکان ہوا کرتی تھی اور ہم باقاعدہ تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان ہی دنوں ریڈیو اسٹیشن پر ہمیں بحیثیت مزاح نگار مدعو کیا گیا، مزاحیہ بات چیت کا عنوان تھا: ’’صارفین کے حقوق۔ ‘‘

عنوان پڑھ کر محسوس ہوا گویا گاندھی جی سے گذارش کی جا رہی ہے کہ وہ اہنسا کی مذمت میں تقریر کریں یا کسی دہشت گرد کو اہنسا کی موافقت میں اظہار خیال کے لیے بلایا گیا ہو۔

ریڈیو سے پیش کیے جانے والے اس قسم کے پروگراموں کو عام طور پر فرمائشی پروگراموں میں شمار کیا جا سکتا ہے شاید اسی لیے ان میں آورد کا پہلو نمایاں ہوتا ہے البتہ ہمارے لیے ریڈیو پروگراموں میں آمد یعنی انکم کا پہلو ہمیشہ نمایاں اور ہمارے پیش نظر رہا ہے۔ اسی لیے ریڈیو اور اس کے ذریعے وجود میں آ نے والا ادب قابلِ تعریف ہے۔ یہاں پیش کی جانے والی چیزیں ’چیزے دیگر است ‘ کے باوجود بڑی نا پائیدار ہیں اسی لئے ریڈیو پروگرام کی خبریں ’ ہوا کے دوش پر‘ کی سرخی کے تحت شائع ہوتی ہیں اور ادب کی یہ قسم اپنی بے وقعتی اور ناپائیداری پر دال ہے لیکن جو ریڈیو کے لیے نہیں لکھا جا رہے اس ادب کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے۔ لکھے کا اعتبار ہے۔ ریڈیو کے لئے لکھا نہیں جاتا ( یا کم از کم لکھا ہوا کتابوں میں شائع نہیں ہوتا) اس لئے اپنے لکھے پر پکڑے جانے کے امکانات کم ہیں۔ اس لحاظ سے ادب برائے ریڈیو قابلِ تعریف ہے۔

ریڈیو والوں سے ملتے وقت نشریات کی تعریف کرنا ان پروگراموں کے، اپنے اور سامعین کے لیے مفید ہوتا ہے، آج کل تعریف سے کیا نہیں ہوتا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے